• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسدادِ تمباکو نوشی کے لیے صرف قانون سازی ہی کافی نہیں، رویوں میں تبدیلی بھی ناگزیر ہے

ڈاکٹر غلام صدیق،لاہور

صحتِ عامّہ کے حوالے سے دُنیا بَھر کو جن بڑے خطرات کا سامنا ہے،ان میں تمباکو نوشی سرِفہرست ہے ۔تمباکو میں لگ بھگ چار ہزار مضرِ صحت کیمیائی اجزاء پائے جاتے ہیں، جن میں ایک کیمیائی جُزو نکوٹین بھی شامل ہے،جو زہریلے اور نشہ آور اثرات کا حامل ہے۔اگر چہ کش لگانے کی صورت میں نکوٹین اعصاب پر اثر انداز ہوکر وقتی طور پر سکون کی سی کیفیت طاری کردیتی ہے، مگر جب یہ خون میں شامل ہوتی ہے، تو اسے گاڑھا کرکے خون ہی کے کئی عوارض کا باعث بن جاتی ہے۔ چوں کہ گُردے گاڑھا خون اچھی طرح صاف نہیں کرسکتے، لہٰذا عام فرد کی نسبت تمباکو نوش افراد میں مختلف عوارض لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔مثلاً بُلند فشارِ خون، ذیابطیس، یورک ایسڈ، ہارٹ اٹیک اور کڈنی فیلیئر وغیرہ۔حال ہی میں امریکی حکومت کی جانب سے تحقیق پر مبنی’’سرجن جنرلز رپورٹ‘‘ پیش کی گئی۔ اس نوعیت کی ایک رپورٹ تقریباً پچاس برس قبل(1964ءمیں) بھی پیش کی گئی تھی،جس میں بتایا گیا کہ تمباکو نوشی پھیپھڑوں کے سرطان کا سبب بن سکتی ہے۔ تاہم، اب جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کثرتِ تمباکو نوشی13اقسام کے سرطان سمیت اندھے پَن اور بینائی کم زور ہونے کا بھی باعث بن جاتی ہے۔علاوہ ازیں، خواتین میں تمباکونوشی کے ان تمام مضر اثرات سمیت مُردہ بچّے کی ولادت، بچّے کا پیدایشی طور پر ہونٹ کٹا ہونا اور دورانِ حمل مختلف پیچیدگیاں عام ہیں۔ نیز، جوڑوں کے درد اور قوّتِ مدافعت میں کمی وغیرہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر تمباکو نوشی کی شرح کم نہیں کی ہوئی، تو ہر 13بچّوں میں سے ایک تمباکونوشی سے منسلک کسی بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوسکتا ہے۔نیز، وہ افراد جو سگریٹ نوشی کی بُری علّت کا شکار نہیں، مگر اس کے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں، اُن میں دِل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں سے متاثر ہونے کو طبّی اصطلاح میں"Passive Smoking" کہا جاتا ہے۔

امریکی سائنس دانوں کی ایک اور نئی تحقیق کے مطابق کسی بھی انسان کے جسم میں پہلی بار سگریٹ کے ابتدائی چند کش سیکنڈز میں ایسی جینیاتی مضر اثرات کی وجہ بن سکتے ہیں، جن کا تعلق سرطان سے ہوتا ہے۔ سگریٹ نوشی کے منفی اثرات جسم پر انتہائی تیزی سے مرتّب ہوتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی فرد کی ورید میں انجیکشن کے ذریعے مضرِ صحت اجزاء داخل کر دیئے جائیں۔ اس تحقیق کے دوران ماہرین نے تمباکو نوش افراد کے جسموں میں ماحول آلودہ کرنے والے اور زہریلے مادّے پی اے ایچ(Polycyclic aromatic hydrocarbons)بھی تشخیص کیے، جو تمباکو کے دھوئیں اور باربی کیو کے دوران بُری طرح جل جانے والی غذائی اشیاء میں پائے جاتے ہیں۔ نیز، تمباکو نوشی کے محض پندرہ سے تیس منٹ بعد فینوتھرین(Phenothrin)نامی مادّہ بھی پایا گیا، جو ان کے خون کا حصّہ بن چُکا تھا۔ یہ ایک ایسا مادّہ ہے، جو اپنے زہریلے پَن کی وجہ سے خاص طور پر ڈی این اے کے لیے تباہی اور اس میں تبدیلیوں کے علاوہ سرطان کا بھی موجب بنتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر روز تقریباً تین ہزار افراد پھیپھڑوں کے سرطان کے سبب ہلاک ہوجاتے ہیں اور ان میں90فی صد اموات کی براہِ راست وجہ تمباکو نوشی ہے۔

موجودہ دَور میں نوجوان نسل تمباکو نوشی کے مختلف طریقے اپنا رہی ہے، ان میں نکوٹین والے ای سگریٹ، مختلف ذائقوں والے سگار اور شیشہ وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رہے کہ سگریٹ سے کہیں زیادہ خطرناک حقّے کے ذریعے کی جانے والی شیشہ نوشی ہے۔ ماہرین کے مطابق شیشہ نوشی کا ایک سیشن پورے ایک سو سگریٹس کے برابر ہوتا ہے، جب کہ ایک ہی پائپ استعمال کیے جانے کے سبب منہ کا سرطان عام ہورہا ہے، تو جسمانی کم زوری کی وجہ بھی یہی مُوذی شیشہ ہے۔ چوں کہ زیادہ تر شیشہ کیفے پوش علاقوں، کالجز، یونی ورسٹیز وغیرہ کے نزدیک واقع ہوتے ہیں، اسی لیے لڑکے اور لڑکیوں دونوں ہی میں اس کا رجحان زور پکڑتا جارہا ہے۔

پاکستان میں انسدادِ تمباکو نوشی کے قوانین کے مطابق تمام عوامی مقامات، بشمول سرکاری و غیر سرکاری دفاتر ، اسپتال، تعلیمی ادارے، ائیر پورٹس، بس اڈّے، ریلوے اسٹیشنز، سینما ہالز، لائبریریز اور پبلک ٹرانس پورٹ میں تمباکو نوشی جُرم قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح تمباکو فروخت کرنے، خریدار کو کسی قسم کی رعایت دینے اورٹوبیکو مصنوعات کی تشہیر بھی منع ہے، جب کہ قانوناً اٹھارہ سال سے کم عُمر افراد ٹوبیکو مصنوعات فروخت کرنے کے مجاز نہیں۔ پھر وزارتِ صحت کی تجویز پر تمباکو پر ٹیکس بڑھادیا گیا ہے، لیکن ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں صرف قانون سازی اور خلاف ورزی پر سزائیں ہی کافی نہیں، ہمیں اپنی عادات اور رویّوں میں بھی ہر صُورت تبدیلی لانا ہوگی۔ ہر تمباکو نوش کو اس بُری عادت کو ترک کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین